راحت اندوری کو لوگ مشاعروں کا بے تاج بادشاہ کہتے ہیں۔ 1950 میں اندور میں پیدا ہونے والے راحت قریشی نے راحت اندوری بن کر اپنے شہر اندور کو بھی یادگار بنا دیا۔ 1968 میں شاعری شروع کی اور ترنم ریز مشاعروں میں اپنے منفرد کلام اور منفرد تحت اللفظ پڑھنے کے انداز سے خود کو مشاعروں کی ضرورت بنا لیا۔ انھوں نے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری بھی لی، کالج میں لکچرر بھی رہے، عالمی شہرت حاصل کی لیکن وہ یاد کئے جائیں گے تو ایک قلندر کی طرح، جو عام انسانوں کے دل کی آواز بن گئے تھے۔ آسان زبان میں سچی چبھتی ہویؑ باتیں کہنے والے زندہ ضمیرراحت اندری کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتےتھے۔ وہ ایک مصور بھی تھے۔ ان کے اشعار میں ان کا یہ ہنر بھی الفاظ کے کینوس میں خوبصورت رنگ بھرتا تھا۔ ان کی پوری شخصیت ان کے پڑھنے کے انداز اور الفاظ کے زیرو بم سے ہم اہنگ ہوتی تھی، جس کی کوئ نقل کر ہی نہیں سکتا تھا۔