لوَندې زُلفې پاس پۀ بام هوا ته نيسي
لوَندې زُلفې پاس پۀ بام هوا ته نيسي ښکلې مخ هغه ګُلفام هوا ته نيسي د يو …
لوَندې زُلفې پاس پۀ بام هوا ته نيسي ښکلې مخ هغه ګُلفام هوا ته نيسي د يو …
غنی خان Ghani Khan غني خان | |
---|---|
خان عبدالغنی خان | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1914ء ہشتنگر, برطانوی ہند |
وفات | مارچ 1996ء چارسدہ، پاکستان |
شہریت | افغان |
قومیت | افغان |
دیگر نام | عبدالغنی خان، لیوانے، غنی بابا، غنی دادا اور غنی ملنگ |
نسل | پشتون |
آبائی علاقہ | چارسدہ |
مذہب | مسلم |
ساتھی | افغان نشنل پارتی |
والدین | خان عبدل غفار خان ولد خان بهرام خان |
والد | خان عبدالغفار خان |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی |
وجہ شہرت | شاعری، فلسفہ |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
خان عبد الغنی خان المعروف غنی خان (پیدائش: 1914ء|وفات: 1996ء) بیسویں صدی میں پشتو زبان کے انتہائی معروف شاعر تھے۔ غنی خان کی شاعرانہ صلاحیتوں کی بنا پر انھیں خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا جیسے پشتو کے قد آور شاعروں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ایک معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بہترین مصنف اور مصور بھی تھے۔ غنی خان خدائی خدمت گار تحریک کے راہنما خان عبدالغفار خان کے فرزند اور عوامی نیشنل پارٹی کے پہلے صدر خان عبدالولی خان کے بڑے بھائی بھی تھے۔
غنی خان برطانوی دور حکومت کی انتظامی تقسیم کے مطابق صوبہ سرحد کے قصبہ ہشت نگر میں پیدا ہوئے جو آج کل گاؤں اتمانزئی، ضلع چارسدہ کہلاتا ہے۔ آپ خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کے صاحبزادے اور عوامی نیشنل پارٹی کے پہلے منتخب صدر خان عبدالولی خان کے بڑے بھائی تھے۔ غنی خان کی اہلیہ پارسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور نواب رستم جنگ کی صاحبزادی تھیں۔ غنی خان نے فنون لطیفہ کی تعلیم رابندرا ناتھ تگور یونیورسٹی سے حاصل کی اور مصوری اور مجسمہ سازی میں انتہائی قابل فنکار مانے جانے لگے۔ فنون لطیفہ کی مزید تربیت برطانیہ سے حاصل کی۔ والد کی ہدایت پر امریکا میں انھوں نے شوگر ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کی اور متحدہ ہندوستان واپس آ کر تخت بائی شوگر مل میں نوکری شروع کردی۔ اپنے والد کی تحریک سے انتہائی متاثر ہونے کی وجہ سے وہ خدائی خدمتگار تحریک کا حصہ رہے اور پشتونوں کی آزادی و حقوق کے علمبردار رہے۔ گو ہندوستان کی تقسیم سے پہلے ہی انھوں نے سیاست کو خیرباد کہہ دیا تھا لیکن حکومت پاکستان نے 1948ء میں غنی خان کو اپنے والد کے ہمراہ گرفتار کر لیا۔ آپ 1954ء تک ملک کی مختلف جیلوں میں پابند سلاسل رہے۔ قید کے اسی دور میں انھوں نے اپنی مشہور زمانہ شاعری کا مجموعہ “دہ پنجرے چغار“ تحریر کیا جو ان کے بقول ان کی زندگی کا کل سرمایہ ہے۔ حکومت پاکستان کے زیر انتظام فنون و ادب کے اداروں نے غنی خان کی شاعری اور خدمات کو اصل مقام عطا نہ کیا اور ان کا ابتدائی کلام چھپنے سے رہ گیا۔ زندگی کے آخری دور میں بہرحال ان کی فنون و ادب میں خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے انعام سے نوازا اور ان کی شاعری کو 1985ء کے بعد کہیں پزیرائی مل سکی ورنہ اس سے پہلے سرکاری سطح پر انھیں انتہائی ناپسندیدہ فنکار تصور کیا جاتا رہا۔ 23 مارچ، 1980ء کو صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے ان کی پشتو ادب اور مصوری میں خدمات کے صلے میں انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔
غنی خان کی جوانی کی چند نظموں کے سوا تمام تر شاعری غیر سیاسی اور رومانوی ہے۔ ان کی شاعری کے مجموعات میں فانوس، پلوشے، دہ پنجرے چاغر، کلیات غنی اور لتون شامل ہیں۔ ان کی انگریزی کتاب The Pathans جو 1947ء میں شائع ہوئی، پشتون قبائل اور تاریخ پر انتہائی مستند سمجھی جاتی ہے۔ اردو ادب میں ان کی واحد کتاب، جس کا عنوان “خان صاحب“ تھا 1994ء میں شائع ہوئی۔
غنی خان کی شاعری پشتو کے کلاسیکی شعرا سے نسبتاً جداگانہ رنگ رکھتی ہے، اس کی وجہ غنی خان علم کے حصول کے ذرائع، آبائی و بیرون ملک ثقافتوں کا مشاہدہ، نفسیات، جذباتیت اور زندگی پر مذہب کے اثرات کی جدا تشریح ایسے عناصر ہیں جو غالب نظر آتے ہیں۔
غنی خان کی قدرت سے رغبت اور پشتون ثقافت اور آبائی علاقوں سے محبت ان کی تصانیف سے عیاں ہے، وہ لکھتے ہیں،
غنی خان کی وفات کے بعد، حکومت خیبر پختونخوا نے 8 ایکڑ (32,000 مربع میٹر)رقبہ پر غنی خان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کتب خانہ قائم کیا اور اس کو حجرہ غنی یا غنی ڈیری سے منسوب کیا۔ یہ بلاشبہ ایک مصنف اور شاعر کا حجرہ ہے جہاں علم کے پیاسوں کے لیے بے شمار ذرائع دستیاب ہیں۔ یہ کتب خانہ غنی خان کی آبائی رہائش گاہ، “دارالامن“ کے قریب گاؤں اتمانزئی میں قائم ہے۔
خان عبدالغفار خان
خان عبدالولی خان
پشتو ادب